the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
شامی شیرخوار مہاجر بچے ایلان کردی کی سمندر کے کنارے پڑی لاش کی تصویر نے عالمی میڈیا میں تہلکہ مچادیا تھا اسے دیکھ کر دنیا میں لاکھوں لوگ اشکبار ہوگئے تھے، اس کے بعد یوروپ اور امریکہ میں شامی ، عراقی ، لبنانی مہاجرین کی ہمدردی میں ایک زبردست لہر اٹھی۔یوروپی ممالک کے قائدین ، بارک اوباما صدر امریکہ اور پوپ فرنس نے دل کھول کر ان مہاجرین کا استقبال کیا تھا، وزیرِ اعظم ہنگری وکواوربان vickoorban نے کہا تھا کہ ہم انسانیت کی خدمت میں پیچھے نہیں رہیں گے، چکوسلواکیہ کے وزیرِ اعظم رابرٹ فیکو robert fico کا کہنا تھا کہ ۹۵ فیصد پناگزین معاشی طور پر تباہ حال ہیں ، ان کی مدد ہونی چاہئے۔ جرمنی چانسلر انجیلامرکل نے کہا تھا کہ ان پناہ گزینوں کے لئے ہماری تمام سرحدیں کھلی ہیں۔ کئی یوروپی ممالک میں بڑی تعداد نے ان پناگزینیوں کو خوش آمدید کہا اور ان کی ہر طرح کی مدد کے لئے پہل کی ۔عرب پناہ گزینوں کے سلسلہ میں مغربی ممالک میں جو اچانک ہمدردی دیکھی گئی تھی وہ بڑی خوش آیند اور حیرت انگیز تھی۔ حالیہ ۱۳؍نومبر ۲۰۱۵ کو پیرس میں سلسلہ وار دہشت گردی حملے میں ۲۷ لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کا زبردست طوفان کھڑا ہوا۔
یہ حملہ G20 کی ترکی میں منعقد ہوئے کانفرنس سے ٹھیک ایک دن پہلے کیا گیا، G20 کے اجلاس میں ISIS اور اسلامی دہشت گردی و جہادی فورس کا موضوع چھایا رہا۔ اسلام و مسلم دشمن طاقتوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے سوقیانہ تنقید و ہجو کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ العربیہ کے لندن کے تجزیہ نگار اور مخالف دہشت گردی قانون نقاد David Anderson نے وزیرِ اعظم برطانیہ ڈیوڈکمرون David Cameron نے لارڈ مئیر کے عشا ئیہ کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا تھا کہ’’ اسلام پرامن مذہب ہے اور اسلام اور انتہاء پسندی کے آپسی تعلق کا انکار کرنا کافی نہیں ہے‘‘ ۔ اس پر العربیہ کے لندن کے تجزیہ نگار اور قانون دان ڈیوڈ انڈریسن david andruson نے ڈیوڈ کمیرون کے بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کے سلسلہ میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان ہے، اس کے بعد سے انڈریسن کی مذمت میں یورپ کے میڈیا نے کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ چارلس مووری سینئر جرنلسٹ نے یہاں تک مطالبہ کردیا کہ انڈریسن کے خلاف فوج داری مقدمات درج ہونا چاہئے۔ چارلس کا کہنا ہیکہ مسلمانوں کے مذہبی قائدین ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کئے جانے والے ریمارکس اور تنقیدوں کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ لیبرپارٹی کے سربراہ جیریمی کوربان Jeremy Corbyn کو بھی برطانیہ میں زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، کیونکہ جیریمی ہمیشہ ہی سے حکومت کی سرپرستی میں کئے جانے والے دہشت گرد حملوں اور افغانستان و عراق پر فوج کشی کے خلاف اپنا سخت موقف رکھتے آئے ہیں۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے کہا کہ مسلمان اس حملے سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے ، انہیں اپنے نوجوانوں پر کنٹرول رکھنا چاہیے، پھر ایک مرتبہ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کا خاتمہ سرِ فہرست موضوع بنا ہوا ہے۔ چند مٹھی بھر دہشت گردوں کے حملوں کو لیکر دنیا کے دیڑھ بلین مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے عالمی ٹی وی نٹ ورک اور پرنٹ میڈیا کوئی کسر باقی نہیں رکھاہے ۔کٹر یہودی و عسائی ، انتہاء پسند طاقتیں دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوگئے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور مسلمان اتنے بے رحم اور ظالم ہوتے ہیں کہ اپنے محسنوں کو جنہوں نے زیا دہ شامی وعراقی ۴لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دیا اور ان کی بازآباد کاری کے لئے اپنے گرجا گھر کھول دئے، ان ہی یورپی اقوام کے خلاف جارحانہ کاروائی کرتے ہیں، جس ملک نے انہیں شہریت دی اورعزت و احترام سے تمام شہری حقوق سے نوازا اسی ملک کے معصوم عوام کا قتل کرتے ہیں۔ عیسائی سیاسی و مذہبی کردار نے اپنی انسانی ہمدردی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی انتہاء پسندی اور قتل و غارت گری کی تصویر نمایاں طور پر پیش کردی۔
مسلمانوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا سلسلہ کئی صدی قدیم ہے، صلیبی جنگوں اور یورپی نوآباد ریاستی نظام کے قیام کے موقع پر بھی منصوبہ بند طور پر عسائی ، یہودی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے سلسلہ میں زہر بھرا جاتارہا۔ ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں بڑے پیمانے پر اسلام کے خلاف لٹریچر ، پینٹگس اور مجسمے تیا ر کئے جاتے تھے، ۱۸۴۶ میں ’’یونان کے غلام‘‘ کے نام سے ہرام پورس Hiram Powers نے ایک عسائی لڑکی کا خوبصورت برہنہ مجسمہ تیار کیا، جسے زنجیروں میں جکڑی ہوئی ، آنکھیں نیچی ، پریشان دکھا یا گیا، اس کی تفصیلات یہ بتلائی جاتی تھیں کہ ظالم حیوان صفت ترک مسلمانوں نے عسائی خاندان کو قتل کرکے اس لڑکی کو اغواء کیا اور زنا بالجبر کے بعد اسے فاحشہ بنا کر زنجیروں میں فروخت کردیا، اس دوشیزہ کے مجسمہ کی پہلے۱۸۴۶ میں لندن میں نمائش کی گئی اسکے ۶ ہوبہو مجسمے تیار کرکے یورپ اور امریکہ میں پھیلایا گیا۔ ۱۸۴۶ سے ۱۸۵۳ تک لاکھوں لوگ اس دوشیزہ کے مجسمے کو قطا ر لگا کر دیکھا کر تے تھے۔ ، اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف زبردست نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ پورپ میں باضابطہ طور پر مسلمانوں کے مظالم کے جھوٹے قصوں سے بھرے پینٹگس اور کا ٹونس تیا ر کئے جاتے تھے اور اسے پبلک لائبرریوں و کتب خانوں کو ہزاروں کی تعداد میں بھیجا جاتاتھا۔ امریکی مورخوں نے اس پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ عصر حاضر میں منصو بہ بند طر یقہ سے ذرائع و ابلاغ کے ذریعہ منٹوں میں لوگوں کے دل و دماغ کو اسلام کے تعلق سے مسموم کرنے کی زور و شور سے کوشش جاری ہے۔
امریکہ نے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا اور کنڈا نے اعلان کیا کہ شام سے تنہامر دپناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ کم عمر گھڑی ساز طالب علم احمد محمد کو ہتھکڑیاں کیوں پہنائی گئی تھیں، محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہے، فرانس میں مسلم طلباء نے کہا کہ ان سے انتہاء پسند جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، یورپ میں عدم رواداری اور مذہبی نفرت کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
۱۳؍ نومبر ۲۰۱۵ کو پیرس حملوں کے سلسلہ میں کئی تجربہ نگا روں نگار اور ماہرین کی مختلف آراء سانے آئی ہیں، ان کا کہنا ہیکہ یہ حملے شک و شبہ سے خالی نہیں ہے، اسٹیٹ ایکٹرکے طور پر ہوسکتا ہے کہ چند عرب مجرمانہ رکارڈ رکھنے والے نوجوانوں کو دہشت گرد حملے کے لئے آلہ کار بنایا گیاہو۔ جب ٹون ٹاور پر حملہ ہوا تو ملبے میں سے ۵ دہشت گردوں کے پاسپورٹ پولس کو ملے تھے، پیرس کے حملے میں بھی خود کش بمبارکے جسم کے پرخچے اڑگئے ، لیکن اس کا پاسپورٹ سلامت جائے واردات پر پولس کو ملا......؟، پیرس حملے پر راز کے پردے پڑے ہیں۔ جہاں تک جہادی نوجوانوں کا تعلق ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہیکہ ان کا کردار صاف و شفاف ہوتا ہے، منکرات، محرمات سے دور رہتے ہیں، لیکن پیرس حملے میں ملوث نوجوانوں کے سلسلہ میں جو تفصلات میڈیا میں آتی ہیں وہ قابل غور ہیں ۔ پیرس حملے میں ملوث خودکش بمبار ابراہیم عبد السلام کی سابقہ بیوی ناعمہ نے حیرت انگیز انکشافات کیا ہے ،



اس کا کہنا ہیکہ وہ چوری کے جرم میں کئی بار جیل جاچکا ہے، نشہ کا رسیہ تھا، ہمیشہ ڈرگس لیا کرتا تھا، اس نے اپنے گھر کو ڈرگس کا اڈا بنالیا تھا، اس نے زندگی میں کبھی کام نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اس نے نماز پڑھی اور مسجد گیا، ایسے نوجوان کے جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد کے سلسلہ میں دنیا کا کوئی بھی مسلمان اعتماد نہیں کرسکتا۔ ماہرین اس حملے کا اسٹیٹ ایکٹر تھیوری کے تحت تجزیہ کررہے ہیں۔فرانس سے دوہزار کلومیٹر دور شام کی خانہ جنگی میں اس دہشت گرد حملے سے کس کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس سے ضرور حکمران ڈکٹیٹر بشار الاسد کا فائدہ ہواہے، شام کے میدان جنگ میں مصروف عسکری گروپس اور آزادی کے لئے لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ ساتھ مسلمانان عالم کی بڑے پیمانہ پر بدنامی کا شکا ر ہو ئے ہیں۔127 معصوم فرانسی عوام کے قتل نا حق سے اسلام اور مسلمان کو کیا فا ئدہ پہنچ سکتا ہے!
اپنے مادر وطن کی آزادی اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے لڑنے والوں اور دہشت گردوں میں بڑا فرق ہے۔ سیاسی حاکمیت اور جمہوریت کے لئے لڑنے والے اہم مسلح گروپس اور تحریکات کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ یہ گروپس کبھی اپنے ملک کے سرحد پار دوسرے ممالک کے معصوم عوام پر حملے نہیں کئے، ہمارے سامنے فلسطینی کاز کے لئے لڑنے والے الفتح اورانتفاضہ، اور افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے پہلے دور کے مجاہدین کی مثال ہے۔ ان عسکریت گروپس نے مسلح افواج کے خلاف اپنے ہی ملک میں گوریلا جنگ لڑی ، لیکن اس لڑائی کو دوسرے ممالک میں کبھی نہیں بڑا ۔ القاعدہ اور طالبان کے بعد صورت حال بدل گئی۔ آج کے دور میں جو دہشت گردی ہم دیکھ رہے ہیں اس میں زیادہ تر عالمی طاقتوں کے فوجی بیارکس اور خفیہ ایجنسیوں کے نٹ ورک کی پیداوار ہے۔
دنیا کے سرکردہ قائدین، منصوبہ ساز اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ القاعدہ کو بنانے اور تیار کرنے میںCIA کا بڑا ہاتھ تھا۔ سابق صدر پاکستان جنرل مشرف نے برملا کہا کہ سویٹ یونین کے خلاف افغانستان مجاہدین کی مدد کے لئے امریکہ نے القاعدہ کو تیار کیا تھا ،مسٹر راکیش سود سابق مشیر وزیر اعظم ہند اور سابق سفیر فرانس کا ایک جامع مضمون ۹؍نومبر ۲۰۱۵ کو روزنامہ ’’ دی ہندو‘‘ میں شائع ہوا ، جس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ القاعدہ پیدوار تھی CIA اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی ISIکی، انہوں نے اپنے مضمون میں شامی و عراقی مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لیا اور فرانس میں۱۰ فیصد مسلم اقلتوں کے ساتھ کئے جانے والے ناانصافیوں کو تفصیلی ذکر کیا، ان کا یہ مننا ہے کہ موجودہ صورت حال فرانس کے سابق صدر سرکوزی اور موجودہ صدر بالنڈی کی غلط پا لسیوں کا نتیجہ ہے۔
ترکی کا قائدانہ رول: ترکی عالم اسلام میں شام وعراق کی موجودہ کشیدگی میں بڑا ہی قائدانہ ذمہ دار رول ادا کررہا ہے، ترکی نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے شام کی خانہ جنگی اور آزادی کی مسلح جدوجہد میں دہشت گرد گروپوں کی مدد نہیں کررہا ہے بلکہ عالمی سطح پر سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ شام کے خطرناک ظالم ڈکٹیٹر بشار الاسد کو بے دخل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اس کے ساتھ ترکی نے سب سے زیادہ 1.5؍ملین پناہ گزینوں کے قیام ،طعام اور صحت کے بڑے پیمانہ پر ریلیف کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہے۔ شام کی جنگ میں عالمی طاقتوں کو فوجی کاروائی کے خلاف انتباہ دیتا رہا ہے اور روس کی شام میں جنگی جہازوں کے ذریعہ بمباری کی شدید مخالفت کی۔ ۲۴؍نومبر ۲۰۱۵ کو روسی جنگی طیارہ کو جو ترکی کی سرحد میں گھس آیا تھا مارگرایا، ترکی بھی دہشت گردی سے متاثر ملک ایک ہے۔
ایران کی شدیدنقصاندہ پالیسی: ایران شام میں بشارالاسد کی ڈکٹیٹر شپ کا نہ صرف حلیف رہا ، بلکہ اپنے پاسداران انقلاب کے کمانڈر ، ایرانی فوجیوں اور حزب اللہ جیسے انتہاء پسند جنگجو گروپس کو شامی افواج کی مدد کے لئے جھونک دیا، صرف ایک ڈکٹیٹر کو بچانے کے لئے معصوم شامی عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو بے دریغ ہلاک کیا جارہا ہے، جنگی طیاروں کی بمباری میں انسانوں کے ساتھ ان کے محلے کے محلے زمین دوز کردئے جارہے ہیں، ایران نے آج تک ایک شامی مہاجر کو بھی پناہ نہیں دی اور نہ ہی شامی مہاجرین کے لیے کوئی ریلیف بہم پہوچانے کا کام کیا۔
ایرانی سیاسی ، روحانی قیادت کا شمار اہل تقوی میں ہوتا ہے، ایرانی صدر حسین روحانی نے سربراہان مملکت کے عشائیہ میں شرکت سے اس لئے انکار کردیا تھا کیونکہ دستر خوان پر شراب پیش کی جانے والی تھی، ایک جانب تو حرام سے اجتناب میں حد درجہ کی احتیاط ہے، تو دوسری جانب محض مسلک کی بنیاد پر کلمہ گو ہم مذہب مسلمانوں کی عراق و شام میں قتل و غارت گری اور خون ریزی کا کیا جواز ہے۔ بشار الاسد سے بڑھکر ایران کی قیادت اس عظیم تباہی کی ذمہ دار ہے۔ شا م میں ایران نے اپنی فو جی قوت کے سا تھ روس کو بھی شا مل کر لیا۔ آخر شامی عوام کا ایسا کیا قصور ہے جو انہیں اتنے بڑے پیمانے پر ان کے عورتوں اور بچوں کو سزادی جارہی ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ شامی اپناملک چھوڑکر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے، شام کا تین چوتھائی حصہ تہس نہس کردیا گیا، کیا محض یہ انتقام اس لئے لیا جارہا ہے کہ وہ سب محض عوام سنی ہیں؟ اسلام کے علمبرداروں کے لئے یہ بات ہرگز سزاوار نہیں کہ وہ ملکی بنیادوں پر معصوم عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑیں۔ بشار الاسد امت نہیں ہے امت تو عوام ہے جسکی بقاء کے لئے ایران کواپنی قوت و طاقت لگادینی چاہئے تھی۔ مسلمانان شام کے مفاد میں ایران روحانی قیادت کو عدل و انصاف کا معاملہ کرنا چاہئے، یہ شامی عوام اور جمہور کا اختیار ہے کہ وہ اپنے لئے سیاسی قیادت کو چنے اور اپنے پسند کی حکومت بنائیں۔ اسلامی انقلاب ایران کے موقع پر کسی دوسرے مسلم ملک نے نہ فوج کشی کی اور نہ ہی داخلی معاملہ میں دخل اندازی کی ، شامی عوام بھی جمہوریت کی خوشگوارفضا ء کو دیکھنے کے حق دار ہیں۔
کئی عالمی طاقتیں شامی عوام کو کچل رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ شام کے سیاسی حل کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوگااور جب تک شام پوری طرح راکھ اور لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا۔جمہوریت اور ملک کی آزادی کے لئے لڑنے والے چھوٹے متفرق گروپس کو بدنام کیا جاتارہے گا۔ پیرس حملے کی وجہ سے ایران ، روس اور بشار الاسد کو یہ جواز مل گیا کہ دیکھو ہم عالمی سطح پر ابھرنے والی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوشاں ہیں یہ تا ثر د ینے کی کو شش کی جا رہی ہے کہاگر بشار الاسد بے دخل کیاجائیگا تو دنیا میں دہشت گردی عام ہوجائیگی، اسپین کے وزیر اعظم نے کہا کہ بڑی برائی سے بشارالاسد کی کم برائی کو گوارہ کرلینا چاہیے۔ ۵ سے زیادہ مسلم ممالک عالمی طاقتوں کی معاندانہ پالسی اور فوج کشی کی وجہ سے پریشان حال ہیں، کئی ملین لوگ مارے گئے پھر بھی مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گرداور انتہاء پسند ہیں۔

نا ظم ا دین فا رو قی
M: 9246 248205
E: nfarooqui1@hotmail.com
Date: 26/11/2015
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.